Add To collaction

فٹ پاتھ




غزل 

لکھنے بیٹھیں تو گزر جائے صدی فٹ پاتھ پر 
کرنے والے کر گئے وه شاعری فٹ پاتھ پر 
ہم نے دیکھا ہے یہ زورِ عشق بھی فٹ پاتھ پر 
آسمانوں سے اتر آئی پری فٹ پاتھ پر 
کوئی جگنو ہے نہ سایہ دور تک برسات میں 
دهیمی دهیمی ہو رہی ہے روشنی فٹ پاتھ پر 
اس نے منگوايا تھا مجھ سے میری کوٹھی کا پتہ 
بھیج دی میں نے بناكر جھوپڑی فٹ پاتھ پر
بستياں آباد ہیں اور لوگ ہیں بے گھر تمام 
کس قدر بکھری ہوئی ہے زندگی فٹ پاتھ پر 
کل جہاں تم بولتے تھے ساتھ نہ چھوڑیں گے ہم 
آج تک تنہا کھڑا ہوں میں اسی فٹ پاتھ پر 


شاعر مرادآبادی



   14
1 Comments

nikksinghnikhil

23-May-2023 08:35 PM

Waah

Reply